Senior JIH leader – Maulana Rafique Ahmed Qasmi passes away (URDU)

June 6, 2020

 

تحریکی و دینی حلقوں میں یہ خبر نہایت افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن مولانا محمد رفیق قاسمی کا آج صبح تقریباً 8 بجے اچانک حرکتِ قلب بند ہوجانے سے انتقال ہوگیا۔ وہ 76 برس کے تھے۔ گزشتہ سال بھی انہیں دل کا دورہ پڑا تھا۔ اس وقت علاج معالجہ کے بعد وہ صحت یاب ہوگئے تھے۔آج صبح دل کا شدیدہ دورہ پڑا، جس سے وہ جاں بر نہ ہوسکے اور روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔مولانا کے انتقال پُر ملال پر جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے انتہائی صدمے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا کی ذات اپنے آپ میں ایک تحریک تھی۔ان کی ولادت 1365ھ/1946ء میں ریاست اترپردیش کے ضلع بلرام پور میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام مولانا محمد الیاس تھا۔ آپ کی ابتدائی تعلیم مدرسہ فرقانیہ گونڈہ (یوپی) میں ہوئی۔ اس کے بعد دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے، جہاں 5 برس اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے فضیلت کی سند حاصل کی۔ مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور سے بھی کچھ فیض اٹھایا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا نے کچھ اوقات مدرسہ شمس العلوم ضلع سدھارتھ نگر، مدرسہ ناصر العلوم گونڈہ، مدرسہ اسلامی میرٹھ اور جامعہ محمدیہ بلرام پور وغیرہ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد جماعت کی سرگرمیوں کے لیے وقف ہوگئے۔
مولانا رفیق قاسمی 1975 میں جماعت اسلامی ہند، ریاست اترپردیش کے ضلع گونڈہ و بہرائچ کے ناظم، پھر علاقہ بریلی کے ناظم مقرر کیے گئے۔ ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ (جون 1975) کے بعد جب جماعت کی سرگرمیوں کو خلافِ قانون قرار دے کر ذمہ داران و ارکان جماعت کو جیلوں میں بند کردیا گیا تھا، مولانا کسی وجہ سے گرفت میں نہیں آسکے تھے۔ اس عرصے میں وہ بہت زیادہ سرگرم رہے۔ مختلف جیلوں میں مقیّد رفقائے جماعت سے ملاقات کرنا اور ان کے حالات سے واقفیت حاصل کرنا، جن رفقاء کی بیل اپلیکیشن سیشن کورٹ سے خارج ہوجاتی تھی، ہائی کورٹ سے ان کی ضمانت کے لیے کوشش کرنا، کورٹ سے متعلق اخراجات کا انتظام کرنا اور ہمہ وقتی کارکن اور دیگر ارکان کے اہل خانہ کے معاشی مسائل کے لیے وسائل کاانتظام کرنا، ان دنوں مولانا کی مصروفیت کے کام تھے۔ 1982 میں جناب سید حامد حسین کو حلقہ اتر پردیش کا امیر مقرر کیا گیا تو مولانا رفیق قاسمی کو ان کا معاون خصوصی بنایا گیا۔ حامد حسین صاحب کے انتقال کے بعد انہیں کچھ عرصہ قائم مقام امیر حلقہ، اس کے بعد امیرحلقہ مقرر کیا گیا۔ وہ اتر پردیش فلاح عام سوسائٹی کے بھی ناظم رہے۔ 1995 میں مولانا محمد سراج الحسن کی کل ہند امارت کے زمانے میں انہیں مرکز جماعت میں بلالیا گیا اور شعبہ خواتین کے اضافی چارج کے ساتھ شعبہ اسلامی معاشرہ کا کل ہند سکریٹری بنا دیا گیا۔ اس ذمہ داری پر وہ مارچ 2019 تک فائز رہے۔ مولانا جماعت کی اعلیٰ اختیاراتی باڈی مجلس نمائندگان کے بھی رکن رہے۔ رواں میقات میں (جو اپریل 2019 سے شروع ہوئی ہے) وہ جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
مولانا مرحوم کا ایک امتیازی وصف یہ تھا کہ مختلف مذاہب کے رہ نماؤں سے وہ خصوصی دعوتی روابط رکھتے تھے۔ ‘دھارمک جن مورچہ’ کے تحت انہیں مشترکہ مسائل کے حل کی خاطر مشترکہ جدوجہد کرنے کے لیے جوڑنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ مذہبی رہنما بھی ان پر بہت اعتماد کرتے تھے اور ان کی خوب قدر و ستائش کرتے تھے۔ اسی طرح مسلمانوں کے مختلف مسالک و مکاتبِ فکر کے علماء اور دینی رہنماؤں سے بھی ان کے قریبی تعلقات تھے۔ خاص طور پر حلقہ دیوبند کے اکابر، علماء اور نمائندہ شخصیات سے ان کے بے تکلف تعلقات تھے اور وہ حضرات بھی ان سے انسیت، محبت اور اپنائیت محسوس کرتے تھے۔ ان کی وجہ سے جماعت اور حلقہ دیوبند میں کافی حد تک قربت بڑھی۔پروفیسر سلیم انجینئر نے مزید کہا کہ” ان کی وفات سے جماعت ایک مخلص اور فعال کارکن سے محروم ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی دینی و تحریکی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے اور سیئات سے درگزر فرمائے، انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے، ان کے پس ماندگان میں اہلیہ، چار بیٹیاں اور چھ بیٹے ہیں۔اللہ ان کو و دیگر لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور تحریک کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین!

جاری کردہ:
شعبہ میڈیا، جماعت اسلامی ہند

Spread the love

You May Also Like…

0 Comments