Govt should be made aware of the flaws of the New Education Policy: Syed Tanveer Ahmed (URDU)

August 18, 2020

 

نئی دہلی: مرکزی حکومت کی نئی تعلیمی پالیسی 2020 کا تجزیہ کرنے کی غرض سے گزشتہ دنوں ایک ویبنار بعنوان ”نئی تعلیمی پالیسی ملی تناظرمیں“مرکز جماعت اسلامی ہند، نئی دہلی میں منعقد ہوا۔ اس پروگرام میں متعدد دانشوران ملت نے شرکت کی۔اس موقع پر جماعت اسلامی ہند کے شعبہ مرکزی تعلیمی بورڈ کے ڈائریکٹر جناب سید تنویر احمد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ”ابھی جو نئی تعلیمی پالیسی آئی ہے، یہ کوئی قانون نہیں ہے بلکہ یہ ایک فریم ورک ہے۔اس فریم ورک کے تحت مزید نظام بنے گا اور پھر اس پر عمل درآمد ہوگا۔اس لئے اس نئی پالیسی کا مطالعہ کرنا اور اس کی کمیوں سے حکومت کو آگاہ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اس نئی تعلیمی پالیسی میں ملک کو ”عالمی علمی سپرپاور“ بنانے اور سب کو تعلیمی اعتبار سے اونچا اٹھانے کا عزم کیا گیا ہے۔یہ ایک اچھا قدم ہے، مگر اس پر عملدرآمد اس وقت ہی ممکن ہوسکتا ہے جب ملک کے تمام باشندوں کو اس میں شامل کیا جائے۔ اس پالیسی میں قدیم ہندوستان کے نظام تعلیم اور اس دور کے پانچ تعلیمی اداروں کا ذکر ہواہے،مگر قرون وسطیٰ کی تعلیمی سرگرمیوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے، جبکہ اس دور میں بھی تعلیم کے بڑے بڑے کام ہوئے ہیں۔مدارس کی عظیم خدمات کو نظرکردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مائنارٹی کا ذکر 62 صفحے کے اس پورے ڈوکومنٹ میں صرف ایک مقام پر پوائنٹ نمبر 6.2.4 میں ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ اقلیتیں اس پالیسی کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہیں۔پالیسی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں شرح داخلہ 50 فیصد کی جائے گی۔ یہ ایک اچھا اور خوش آئند منصوبہ ہے مگر ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت مسلمان جن کی آبادی 14فیصد ہے، کا اعلیٰ تعلیمی اداروں میں شرکت محض 4.4 ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں طلباء کی شرکت 50 فیصد تک تبھی ہوسکتی ہے جب اس بڑی آبادی کو اس پالیسی کا اہم حصہ دار بنایا جائے۔ایک اور خاص نکتہ جس پر توجہ لازمی ہے، وہ یہ کہ ملک کا قانون اقلیتی اداروں کو کچھ مخصوص حق دیتا ہے۔ریاستی حکومتیں انہیں کچھ فنڈ فراہم کرتی ہیں۔مگر اس نئی پالیسی کا رجحان سینٹرلائزیشن کی طرف جھکا ہوا لگتا ہے۔ حالانکہ ابھی یہ پورے طور پر واضح نہیں ہے، مگر پالیسی میں سینٹرلائزیشن کے جھکاؤ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مائنارٹی کے تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس پالیسی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کا معیار سب کے لئے یکساں ہوگا۔ایسی صورت میں مائنارٹی انسٹی ٹیوٹ کو کیسے ریگولیٹ کیا جاسکے گا؟ مدارس کا اسٹیٹس کیا ہوگا؟اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے۔ ا کیڈمک ایجوکیشن کو اونچا کرنے کے لئے ایجوکیشن والنٹیئر کی خدمات لی جائیں گی۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ والنٹیئر کس نظرو فکر کے ہوں گے اور تعلیمی اداروں میں یہ والنٹیئر معیار کو اونچا اٹھانے کے بہانے کیا اپنی فکر کو عام کریں گے؟یہ ایک بڑا خدشہ ہے۔ پالیسی میں ہنر مندی کی بات کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گریڈ نائن کے بعد ہر طالب کسی ایک ہنر کو حاصل کریں گے۔ اس کا ایک منفی پہلو بھی ہے، وہ یہ کہ بارھویں کرلینے کے بعد ان میں آگے بڑھنے کے بجائے کمانے کا شوق پیدا ہو گا اور ڈراپ آؤٹ کا اوسط بڑھنے لگے گا۔پالیسی میں حکومت نے یہ کہا ہے کہ بیرون ملک کی ایک سو آزاد یونیورسٹی کی شاخیں ہمارے ملک میں کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔ظاہری بات ہے ان یونیورسٹیوں کی فیس بہت زیادہ ہوگی لہٰذا ان یونیورسٹیوں میں اقلیتوں کو کم سے کم پچیس فیصد ریزرویشن دیا جائے۔ تعلیمی پالیسی ایک حساس موضوع ہے، لہٰذا ملت کے ماہرین ایک ساتھ بیٹھ کر تجزیہ کریں اور پھر حکومت کو سجھاؤ دیں۔ تاکہ مائنارٹی کو بھی اس پالیسی کا پورا پورا فائدہ مل سکے۔ اس میں ہمیں ملک کی دوسری اقلیت جیسے کرسچن کو ساتھ لے کر چلنا چاہئے، کرسچن کا تعلیمی معیار ہم سے بہت بہتر ہے، ہم ان سے نہ صرف استفادہ کرسکتے ہیں بلکہ ان کو ساتھ لے کر اپنی آواز کو مضبوط کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی ہند ملت میں معیاری تعلیم اور معیاری اساتذہ پیدا کرنے کی تدابیر پر غور کررہی ہے۔ سب کو مل کر آگے بڑھنا ہے کیونکہ مسلمانوں میں کوالٹی ٹیچر کی کمی ہے جس کو پوری کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

جاری کردہ: شعبہ میڈیا، جماعت اسلامی ہند

Spread the love

You May Also Like…

0 Comments