Resolutions of JIH Central Advisory Council

November 20, 2018

نئی دہلی ۱۶؍ نومبر : جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کا تین روزہ اجلاس امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری کی صدارت میں اختتام پزیر ہوا۔ اجلاس میں ملک او ر ملت کو درپیش مسائل ، عدالت عظمیٰ کے بعض اہم فیصلے، ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور فرقہ وارانہ کشمکش ، رام مندر کی تعمیر کو لے کر اشتعال انگیز بیان بازی ، آزاد جمہوری اداروں میں سیاسی مداخلت اور غزہ پر اسرائیل کے حالیہ حملوں پر بہت تفصیل سے گفتگوہوئی اور شوریٰ نے درج ذیل قراردادیں منظور کیں۔
اخلاقی بے راہ روی کو فروغ دینے والے فیصلے :
جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ اس امر پر افسوس اور تشویش کا اظہار کرتی ہے کہ ملک کے عدالتی نظام نے اعلیٰ ترین سطح پر بعض ایسے فیصلے کیے ہیں ، جن سے اخلاقی بے راہ روی کے فروغ کا اندیشہ ہے۔سرمایہ دارانہ نظام ، شہری مسائل ،مادہ پرستانہ رجحانات ، اباحیت کی تشہیر ، نظام تعلیم کی بے سمتی،اخلاقی قدروں کے بحران اور ذرائع ابلاغ کی غیر ذمہ دارانہ روش کی بنا پر پہلے ہی سے ملک میں ایسی فضا موجود تھی ، جس سے خاندانی نظام متاثر ہو رہا تھا، بدکاری اور فحاشی کے واقعات بڑھ رہے تھے اور خواتین پر زیادتیاں عام ہو رہی تھیں۔ حالیہ عدالتی فیصلوں سے اس فضا کے خراب تر ہونے کا امکان ہے۔ مسلمہ انسانی و اخلاقی قدروں کی روشنی میں ہر مہذب سماج نے ہم جنسیت(Homo Sexuality ) کو ایک قبیح برائی قرار دیا ہے اور قانونی و اخلاقی اقدامات کے ذریعے اس برائی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔افسوس ہے کہ عدالت نے اس برے فعل کو قانوناً جائز قرار دیا ہے، اگر وہ آپسی مرضی سے انجام پائے۔ اخلاق، صحت، خاندانی نظام اور سماجی فضا پر اس کے جو تباہ کن اثرات مرتب ہو ں گے،ان کو عدالت نے نظر انداز کر دیا ہے۔
مجلس شوریٰ ملک کے باشعور حلقوں سے اپیل کرتی ہے کہ عوامی بیداری کے ذریعہ اس طرح کے مضر فیصلوں پر نظر ثانی کرائیں۔ مناسب قانون سازی کے ذریعے ہم جنسیت کو دوبارہ جرم قرار دیا جاناچاہیے۔اسی طرح کاافسوس ناک فیصلہ وہ ہے جس نے نکاح کے رشتے میں بندھے ہونے کے باوجود مردوں، عورتوں سب کے لیے قانوناً یہ اجازت دے دی ہے کہ وہ اجنبیوں سے جنسی تعلق قائم کر سکتے ہیں ۔ شرط صرف یہ ہے کہ یہ تعلق آزادانہ مرضی سے ہو اور جبر سے کام نہ لیا جائے۔ بہر صورت ، زوجین میں کسی ایک کی اس بے راہ روی پر ، دوسرے کو قانوناً اعتراض کا حق نہ ہو گا۔ یہ عجیب و غریب فیصلہ، مذہبی و اخلاقی روایات اور انسانی و آفاقی قدروں سے متصادم ہے، جو خاندانی نظام کو سنگین بحران سے دو چار کرے گا۔
مجلس شوریٰ ملک کے عوام و خواص اور قانون ساز مجالس کو توجہ دلاتی ہے کہ بد کاری ہر صورت میں نا قابل قبول ہے خواہ وہ آپسی رضامندی سے ہو یا جبر سے ۔ مناسب قانون سازی کے ذریعے بدکاری کی ان تمام صورتوں کو جرم قرار دیا جانا چاہیے۔

جمہوری نظام کے خود مختار اداروں میں بے جا سیاسی مداخلت :
جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس کو اس بات پر بڑی تشویش ہے کہ ملک کے آزاد جمہوری اداروں میں سیاسی انتظامیہ کی ناروا مداخلت بڑھتی جا رہی ہے۔ چند ماہ قبل سپریم کورٹ کے ججوں کی جانب سے پریس کانفرنس کے انعقاد کے بے نظیر واقعہ نے سارے ملک کو چونکا دیا تھا۔ اگر چہ ججوں کی اصل شکایت چیف جسٹس کے خلاف تھی لیکن واضح اشارے اس بات کے بھی موجود تھے کہ ججوں کو مقدمات حوالہ کرنے کا عمل حکومت کے منشا اور ا س کے مفاد کے پیش نظر ہو رہا ہے۔ ججوں کے تقررات کے سلسلہ میں بھی سیاسی دباؤ کی شکایتیں وقتاً فوقتاً اٹھتی رہتی ہیں۔ آزاد عدلیہ جمہوریت ہی نہیں کسی بھی مہذب سماج کی ایک اہم ضرورت ہے۔ تنگ نظر وقتی سیاسی مفادات کے نتیجہ میں عدالتی نظام کمزور ہو جائے یا اس کی آزادی پر عوام کا اعتماد مجروح ہو جائے تو یہ ملک کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔
حالیہ دنوں میں سی بی آئی کے دو اعلیٰ ترین عہدہ داروں کے درمیان بر سرعام ٹکراؤ اور ڈائرکٹر کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں اپیل نے سی بی آئی کے معاملات میں سیاسی انتظامیہ کی مداخلت کے الزامات کو تقویت پہنچائی ہے۔ یہ الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں کہ سی بی آئی اور دیگر اداروں کو سیاسی مخالفین پر دباؤ ڈالنے اور حکومت کے سیاسی حامیوں کے خلاف مقدمات کو کمزور کرنے کے لیے بھی مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال غیر جانب دارانہ تحقیقات کو مشکوک بنانے کا سبب بن سکتی ہے اور اس سے امن و امان اور قانون کی حکمرانی کوسنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
ریزروبنک آف انڈیا کے معاملات میں مبینہ مداخلت کی خبریں بھی نہایت تشویشناک ہیں۔ کرنسی کی منسوخی جیسے اہم فیصلوں میں بھی اگربنک کی آزادی و خود مختاری کو نظر انداز کیا جائے تو ملک کی معیشت پر اس کے نہایت مہلک اثرات پڑ سکتے ہیں۔ اب ان شکوک کا بھی کھلے عام اظہار ہونے لگا ہے کہ ریزروبنک کے ساتھ ٹکراؤ کا ایک اہم سبب غیر پیداواری اثاثوں NPAs سے متعلق پالیسی سازی کے سلسلہ میں سیاسی انتظامیہ کا دباؤ ہے۔ اب یہ تک کہا جا رہا ہے کہ حکومت کی نظر بنک کے ریزرو اثا ثوں پر ہے۔ یہ سارے شکوک و الزامات نہایت تشویشناک ہیں۔ ریزروبنک ہمارے مالیاتی نظام کا اہم ترین ریگولیٹر ہے ۔ اس کی آزادی اور غیر جانب داری مشکوک ہو جائے تو مالیاتی بازاروں پر اور عالمی معیشت میں ملک کے وقار پر کاری ضرب لگ سکتی ہے۔
اسی طرح کا معاملہ الیکشن کمیشن کا ہے۔ اب ووٹنگ مشینوں (EVM) پر شکوک و شبہات تک ہی بات محدود نہیں رہی ، یہ الزامات بھی لگ رہے ہیں کہ اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ، بر سر اقتدار جماعت کے مفاد کو سامنے رکھ کر کیا جا رہا ہے۔ کئی ریاستوں میں انتخابی فہرستوں میں بھی بے قاعدگیوں کی شکایتیں سامنے آئی ہیں۔
چارسال کے بعد ابھی تک بھی لوک پال کا تقرر نہیں ہو سکا۔ اسی طرح سینٹرل انفارمیشن کمیشن کی غیر جانبدارانہ اور خود مختار حیثیت کو بھی بڑی حد تک مجروح کر دیا گیا۔سینٹرل ویجلنس کمیشن، پرسار بھارتی، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن، مختلف مرکزی یونیورسٹیاں اور اس طرح کے کئی آزاد جمہوری اداروں میں بھی سیاسی انتظامیہ کی بے جا مداخلت کی شکایتیں اب عام ہو چکی ہیں۔
اجلاس کا احساس ہے کہ یہ صورت حال فوری اور سنجیدہ توجہ کی طالب ہے۔ آزاد،جمہوری اداروں کا وجود، ان کی خود مختاری کا تحفظ و احترام اور اختیارات کی مناسب تقسیم کا مستحکم نظام کسی بھی جمہوریت کی بنیادی ضرورت ہے۔
اجلاس صدر جمہوریہ، سیاسی پارٹیوں اور باشعور شہریوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ حکومت کو آزاد اداروں میں مداخلت سے باز رکھے۔

ایودھیا مسئلہ پر اشتعال انگیز بیانات :
جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس ملک میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری، اشتعال انگیزی،بغض وعناد،فرقہ وارانہ منافرت اور قانون شکنی پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ جیسے جیسے ۲۰۱۹ کے پارلیمانی انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے،یہ مسئلہ تیز ہوتا جارہا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کو لے کر سنگھ پریوار سے وابستہ مختلف ذمے داروں کے انتہائی اشتعال انگیز بیانات سامنے آئے ہیں۔بی جے پی کے رہنماؤں ،ممبران پارلیمنٹ،ممبران اسمبلی حتیٰ کہ مرکزی وریاستی وزراء تک اس معاملہ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں۔شوریٰ کا احساس ہے کہ اس پوری سرگرمی کا مقصد مذہبی منافرت کو ہوا دے کر ایک خاص فرقہ کے ووٹوں کو پولرائز کرنا ہے۔
مجلس شوریٰ مرکزی وریاستی حکومتوں کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ ملک میں امن وامان،قانون کی حکمرانی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو قائم وبرقرار رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بابری مسجد۔رام جنم بھومی قضیہ اس وقت سپریم کورٹ میں زیر تصفیہ ہے لہذا تمام لوگوں کو کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کرنا چاہیے۔پارلیمنٹ سے قانون بناکر رام مندر کی تعمیر کا مطالبہ غیر دستوری اور غیر آئینی ہے۔
مرکزی شوریٰ کا احساس ہے کہ اس پوری ہنگامہ آرائی کا ایک مقصد عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی ہے۔ملک میں عدل وانصاف ،قانون ، شواہد اور طے شدہ ضوابط کی بنیاد پر ہی قائم ہوسکتا ہے نہ کہ اکثریت کی رائے اور آستھا کی بنیاد پر۔ ملک کے شہریوں کی بڑی تعداد قانون کی پابند اور امن و انصاف جیسی قدروں میں یقین رکھتی ہے لہٰذایہ بات یکسر غلط،گمراہ کن اور بے بنیاد ہے کہ ملک کی اکثریت ہر حال میں بابری مسجد کی زمین پر رام مندر کی تعمیر چاہتی ہے۔
مجلس شوریٰ فرقہ پرست قوتوں اور شر پسند عناصر کو انتباہ دیتی ہے کہ وہ عدالت کا فیصلہ آنے تک دھمکیاں دینے اور اعلانات کرنے سے گریز کریں اور مرکزی وریاستی حکومتوں سے توقع رکھتی ہے کہ وہ اس طرح کی حرکتوں پر سختی سے روک لگائیں گی۔
غزہ پر اسرائیل کی حالیہ جارحیت :
مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی ہند کا یہ اجلاس غزہ پٹی پر اسرائیل کی حالیہ بمباری اور مزائیلی حملوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔اور مسلم ممالک ،اقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اسرائیل کو مظلوم فلسطینیوں پر ان وحشیانہ حملوں سے باز رکھیں۔ مرکزی شوریٰ کو امید ہے کہ فی الحال جو جنگ بندی ہوئی ہے وہ باقی رہے گی۔ البتہ اس اجلاس کو اس بات پر افسوس ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا جو اجلاس کشیدگی روکنے کے لیے بلایا گیا تھا وہ بے نتیجہ ختم ہوگیا۔
اسرائیل کی تازہ جارحیت اور میزائلی حملوں نے اس چھوٹے سے خطے کی صورت حال کو درہم برہم کردیا ۔ نہتے فلسطینی آبادی اور شہری مقامات پر اس وحشیانہ بمباری نے نہ صرف یہ کہ غزہ کی پہلے ہی سے تباہ وبرباد بستی کے ایک بڑے انفرااسٹرکچر کو تہس نہس کردیا بلکہ بہت سے معصوم فلسطینی شہری شہید ہوگئے۔
اجلاس کا احساس ہے کہ اسرائیل کی اس تازہ جارحیت نے خطہ میں امن کے لیے کیے جانے والے عالمی اقدامات اور کوششوں کو بھی سخت نقصان پہنچایا ہے بلکہ یہ اندیشہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو وہ ایک بھیانک جنگ کا روپ بھی لے سکتا ہے۔
اسرائیل نے گزشتہ دس سالوں سے غزہ کی ۲۰ لاکھ کی آبادی کو بنیادی ضرورتوں تک سے محروم کردیا ہے۔ اقوام متحدہ تک یہ انتباہ دے چکی ہے کہ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو ۲۰۲۰ء تک پورا علاقہ ناقابل رہائش خطہ میں تبدیل ہوجائے گا۔ افراد اور اشیاء کی آمد ورفت اور اکسپورٹ اورامپورٹ پر لگی اسرائیلی پابندی نے اس پورے خطہ کو ایک پریشر کوکر میں تبدیل کردیا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
مرکزی شوریٰ کا احساس ہے کہ فلسطینیوں کی جوابی کاروائی پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے وہ صرف دفاعی کاروائی کررہے ہیں، ان کا یہ ردعمل اسرائیل کے پے در پے حملوں اور ظلم و جبر کے خلاف اپنے مظلوم عوام کے تحفظ کے لیے ہے۔
مرکزی مجلس شوریٰ مسلم ممالک،عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ سے اپیل کرتی ہے کہ وہ معصوم اور نہتے فلسطینیوں کی مددکے لیے آگے آئیں۔اسرائیل کو جارحانہ اقدامات سے باز رکھیں اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کی راہ ہموار کریں تاکہ فلسطینیوں کو بھی اپنی زمین پر امن وسلامتی کے ساتھ آزادانہ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو۔
مجلس شوریٰ اس پر حیرت و افسوس کا اظہار کرتی ہے کہ بعض مسلم ممالک، جارحیت کے شکار فلسطین و اہل فلسطین سے یگانگت و تعاون کا سلوک کرنے کے بجائے ظلم و ناانصافی کے خوگر اسرائیل سے قربت و اپنائیت کے اظہار کی جانب مائل ہو کر اپنی اسلامی غیرت و حمیت کو متاثر کر رہے ہیں۔ انھیں اپنے اس ناروا طرز عمل پر غور کرنا اور اس کو تبدیل کرنا چاہیے۔
مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی ہند کا یہ بھی احساس ہے کہ ہمارا ملک ایک اہم عالمی طاقت ہے، لہٰذا ہماری حکومت کو بھی مسئلہ فلسطین میں اپنے ملک کے سابقہ منصفانہ موقف پر قائم رہنا چاہیے اور اپنے اثرات و تعلقات کو استعمال کر کے اسرائیل کی جارحیت کو ختم کروانے اور اہل فلسطین کو ان کا جائز منصفانہ حق دلوانے کی موثر کوشش کرنا چاہیے۔
***

Spread the love

You May Also Like…

0 Comments