Psychological health also important to fight Covid: S Ameenul Hasan –URDU

August 6, 2020

نفسیاتی صحت بھی کوئڈ سے مقابلے کے لئے ضروری ہے: ایس. امین الحسن

جناب ایس امین الحسن، نائب امیر جماعت اسلامی ہند جہاں علوم اسلامی کا گہرا علم رکھتے ہیں،وہیں ایک سول انجینئر ہونے کے علاوہ ماہر نفسیات بھی ہیں۔ نفسیاتی علوم کی ایک شاخ ’این ایل پی‘ ہے۔ موصوف اس کے ماہر اور ٹرینر ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک کا دورہ کرچکے ہیں۔سید تنویر احمد کو دیئے گئے انٹریو میں آپ نے کوئڈ کے اس دور میں پیدا شدہ نفسیاتی مسائل پر گفتگو کی ہے۔ آپ کے متعدد لیکچرس یو ٹیوب پردستیاب ہیں۔

سوال: کوئڈ 19 سے متاثرہ سماج میں کن نفسیاتی امراض نے جنم لیا ہے؟
جواب: کوئڈ اور لاک ڈاؤن نے معاشی اور معاشرتی مسائل کو جنم دیاہے جس کے نتیجہ میں کئی افراد نفسیاتی الجھنوں اور امراض کا شکار ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ اُس سے قبل چین اور بعض افریقی ممالک میں ُاس وقت پھیلے ہوئے جان لیوا وائرس پر قابو پانے کے لئے لاک ڈاؤن اور قرنطینہ جیسے تدابیر اختیا ر کئے گئے تھے۔ ان تدابیر کے نتیجہ میں اس وقت کی آبادی پر کس طرح کے نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے تھے، اس کا ریکارڈ بھی رکھا گیا ہے اور ان کا تجزیاتی مطالعہ بھی ہوا ہے۔ ایسے حالات میں بالعموم افراد اضطراب، ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ ذہنی امراض ذیابطیس، بلڈ پریشر اور ہائپر ٹیشن جیسے عوارض کو انسانی جسم میں پیدا کردیتی ہیں۔ ذہنی اور جسمانی طور پر متاثر فرد کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ایسے افراد کو منفی نفسیاتی رجحانات سے نکالنا علاج بھی ہے اور خدمت بھی۔

س: ان نفسیاتی مسائل کا کتنا گہرا اثر انسانی زندگیوں پر ہورہا ہے؟
ج: وباء اور لاک ڈاؤن سے لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوگئے ہیں۔ شہری زندگی میں دو تا چار فیصد خاندانوں کو بڑے گھر میسر ہیں، باقی خاندان ایک ہزار مربع فٹ یا اس سے بھی کم رقبہ کے فلیٹس یا گھروں میں مقید ہیں۔انسان کو سماجی حیوان کہا جاتاہے۔ آپس میں میل ملاپ اس کی سرشت میں داخل ہے۔ لوگوں کے حلقہ احباب ہوتے ہیں،وہ ان کے درمیان اپنے خدمات، تجربات، خیالات اور ماضی کے واقعات کو شیئر کرتے ہیں۔ اس سے اس کی بوجھل طبیعت فرحت حاصل کرتی ہے۔ عمر رسیدہ افراد پارکوں میں صبح کی چہل قدمی کے دوران گپ شپ کرلیتے ہیں۔ ایسا ہی عمل خواتین کا اور طلبہ و نوجوانوں کا بھی ہوتا ہے۔ اب وبا کی وجہ سے یہ سرگرمیاں مفقود ہو گئی ہیں۔ہر عمر کے افراد کے اپنے سماجی حلقے ہوتے ہیں۔ مثلاً مذہبی اجتماعات، مسجد، جم، شادی بیاہ، کھیل کے میدان اور چائے کی ہوٹلیں وغیرہ،اب یہ مراکز جو کمیونیٹی لائف فراہم کرتے تھے، اب بند ہو چکے ہیں۔
انسان ایک دوسرے کی مدد کرتا ہے، ایک دوسرے پر بھروسہ اور اعتماد کرتاہے لیکن اس اہم انسانی وصف کو حالات نے شدید زک پہنچائی ہے۔ اگر کوئی فرد کسی محلہ اور اپارٹمنٹ میں کسی اور مقام سے آتا ہے تو اب اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسے کوئڈ کا مریض سمجھا جاتاہے۔نہ دل ملتے ہیں نہ ہاتھ، گلے تو دور کی بات ہے۔کانا پھوسی ہونے لگتی ہے کہ ”دیکھو وہ فلاں شہر سے آیا ہے۔ وہاں کوئڈ خوب پھیل رہا ہے۔ شاید یہ بھی متاثر فرد ہوگا“۔ اگر وہ حقیقتاً متاثر ہو تب بھی اس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنا، ہاسپیٹل لے جانااور اس کی مدد کرنا،یہ رویے یکسر اس کوئڈ وائرس نے تبدیل کردیئے ہیں۔ان رویوں اور سماجی کیفیات نے ذہنی تناؤ کو بڑھا دیا ہے۔

س: یہ خبریں بھی ہیں کہ اس ماحول میں خواتین پر تشدد کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ایسا کیوں؟
ج: یہ صحیح ہے۔ ایک خبر کے مطابق گھر یلو تشدد کے واقعات میں 65 فیصد کی بڑھوتری ہوئی ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اول عام دنوں میں مرد حضرات معاشی تگ و دو کے لئے گھروں سے باہر رہتے ہیں۔چنانچہ میاں اور بیوی میں محدود وقت رابطہ رہتا ہے۔ اب یہ وقت بڑھ گیا ہے۔ ایک دوسرے کے منفی رویے اور کمزوریاں بھی آشکارہ ہورہی ہیں۔ بعض حالات میں ایک دوسرے سے مختصر وقت کے لئے دوری بھی مثبت اثر ڈالتی ہے لیکن اب یہ ممکن نہیں ہے۔ سماجی زندگی انسانوں کے جذبات کے لئے سہارا بنتی ہے،وہ موجود نہیں ہے۔ اس لئے مرد و خواتین آپے سے باہر ہورہے ہیں۔غصہ کو قابو میں نہیں رکھ پارہے ہیں۔نتیجتاً تو تو میں میں سے معاملہ تشدد کے دائرے میں بہت جلد داخل ہورہاہے۔
دوسری اہم وجہ معاشی اثرات ہیں۔ لوگوں کی نوکریاں چلی گئی ہیں۔ بچت کی گئی رقم ختم ہوچکی ہے۔ بینکوں میں ’گولڈ لون‘ کے لئے درخوستیں دوگنی ہوگئی ہیں۔ ایسے حالات میں میاں، بیوی کے تعلقات کو ضرور مجروح کرتے ہیں اور نوبت لڑائی جھگڑے اور تشدد تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ لوگوں کی معاشی مدد کی جائے، انہیں کونسلنگ کے ذریعہ نفسیاتی طور پر مضبوط بنایا جائے۔

س: کیا بچوں میں بھی تناؤ بڑھ رہاہے؟
ج: ہاں لاک ڈاؤن اور کوئڈ کی وجہ سے اموات کی خبروں کو پڑھ اور سن کر بچوں میں بھی تناؤ کی کیفیت بڑھ رہی ہے۔ بچوں کی فطرت میں شرارت، نئے تجربات کرنا، کچھ کرکے سیکھنا، کھیل کود۔ اچھلنا دوڑنا شامل ہیں۔دوست بچوں کی زندگی کا اہم حصہ ہوتے ہیں۔ ان سے بات چیت، تمسخر بچوں کی ضرورت ہیں۔ کوئڈ نے ان تمام پر قدغن لگا دیاہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ گھروں میں ماں اور باپ دونوں کی 24 گھنٹے نگرانی ہے، اس سے ضرور بچوں کی زندگی متاثر ہوئی ہے، ان میں تناؤ بڑھا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ بچے جب عام دنوں میں اسکول جاتے ہیں تو ہفتہ کے پانچ چھ دن ان کی زندگی ایک نظم کے تحت چلتی ہے۔ ویک ایند(Week end)، ہفتہ اور اتوار چھٹی کا ماحول ہوتا ہے۔ اس دن بچے خوب سوتے ہیں اور اپنی من پسند کھانے کھاتے ہیں۔ ان میں ’جنک فوڈ‘ بھی شامل ہے۔ اب تو بس چھٹی ہی چھٹی ہے، نیند زیادہ ہورہی ہے۔ سونے اور جاگنے کے اوقات بے ڈھنگے ہوگئے ہیں۔ کم محنت اور خوب کھارہے ہیں۔ اس لئے ان میں موٹاپے کی شکایت پیدا ہو نے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ اسکول بند ہونے کی وجہ سے ذہن خالی ہے۔ والدین کی ڈانٹ میں اضافہ ہورہا ہے۔ جذباتی بوجھ کو ہلکا کرنے کے لئے دوستوں کا حلقہ نہیں ہے۔ یہ سارے عوامل بچوں میں نفسیاتی اور جسمانی امراض پیدا کرسکتے ہیں۔ اس لئے والدین کو بہت ہی حکمت و دانائی کے ساتھ اپنی سرپرستی کے فرائض انجام دینا ہے۔

س: تناؤ کی کیفیت بڑھنے سے زندگیوں پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟
ج: سماج میں پھیل رہے ذہنی تناؤ کو ’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘نے بھی تسلیم کیاہے۔ بعض ماہرین نفیسات نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ انسانی زندگی پر کوئڈ وائرس سے زیادہ اس وبا کے خوف نے اثر ڈالا ہے اور کثیر تعداد میں لوگ نفسیاتی امراض کا شکار ہو چکے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ یہ وقتی معاملہ ہے،بہت جلد دنیا اس سے باہر نکل جائے گی۔ لیکن ہمارے ملک میں چار ماہ سے زائد عرصہ ہوچکا ہے۔حالات میں بہتری کے علامات نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس کا اثر یہ ہورہا ہے کہ لوگوں میں اضطراب اور بے چینی بڑھ رہی ہے۔ اضطراب کی کیفیت میں کوئی فرد یکسوئی کے ساتھ کسی فعل کو انجام نہیں دے سکتا۔ زیادہ اضطراب اور بے چینی، افراد کو ڈپریشن میں دھکیل دیتے ہیں، ڈپریشن میں فرد تنہائی پسند ہوجاتاہے،اسے افراد سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ اس کی اعصابی اور ذہنی قوت کمزور ہوجاتی ہے۔ پست ہمت ہوجاتاہے، تخلیقی صلاحیت مر جاتی ہے جس کے نتیجہ میں اپنے آپ کو ناکارہ سمجھنے لگتا ہے۔ جب یہ کیفیت شدت اختیار کر جاتی ہے تو اس کے اندر خود کشی کے جذبات جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ موجودہ صورت حال میں یہ بھی خبریں ہیں کہ خود کشی کرنے والوں کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے افراد خود بھی پریشان ہوتے ہیں اور اپنی کیفیت و رویوں سے دوسروں کو بھی متاثر کردیتے ہیں۔فیملی کی خوشی داؤ پر لگ جاتی ہے۔

س: آپ نے جن مسائل کاذکر کیا ہے،ان سے مقابلہ کیسے کیا جائے۔ حل کی کیا تدابیر ہیں؟
ج: میں نے زندگی کے صرف ایک شعبہ، نفسیات سے متعلق چند مسائل کا تذکرہ کیا ہے۔ اس پر تفصیلی گفتگو ہوسکتی ہے۔ مختلف فورمس میں اس پر ماہرین بحثیں کررہے ہیں۔ نفسیات کے شعبہ کے علاوہ کوئڈ نے معیشت، سیاست، انتظامیہ، حفظان صحت، علاج معالجہ اور سیرو تفریح وغیرہ شعبہ حیات پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔ یہ امر قابل مذمت ہے کہ ایسے دیگر گوں حالات میں بے قصور لوگوں کی گرفتاریاں ہورہی ہیں۔ سماج کے کمزور طبقہ پر زیاتیاں ہورہی ہیں۔ ایک بڑی آبادی شدید معاشی مسائل سے دوچار ہے، صحت کی سہولیات تنگ ہیں، ان حالات سے نمٹنے کے لئے میرے چار مشورے ہیں۔
۱. سماج کے مختلف طبقات اور عمر والے افرد کے نفسیاتی مسائل کو حل کرنے کا انتظام کیاجائے۔ کونسلنگ سینٹرس (آن لائن) کام کریں۔ ویب سائٹ کا انعقاد ہو، بچوں کی صحت مند تفریح کا اختراعی طریقہ ایجا د کئے جائیں۔
۲. معاشی محاذ پر یوں تو غیر معمولی کام ملت نے انجام دیا ہے، اس میں جماعت اسلامی ہند کی منظم کوشش بھی شامل ہیں۔ اس دوران دیگر جماعتوں، تنظیموں اور افراد کی خدمات بھی لائق ستائش ہیں۔ بعض افراد نے حیرت انگیز قربانیاں پیش کی ہیں لیکن یہ چیلنج برقرار ہے۔کوئڈ سے باہر آنے پر بھی اس کام کو منظم اور مستعدی کے ساتھ انجام دینا ہوگا۔
۳. لوگوں میں عزم اور حوصلہ پیدا کیا جائے۔ عزم اور حوصلہ زندگی کے مقصد کو متعین کرنے سے آتا ہے۔ لوگوں کو ایک بڑا خواب دیکھنے کی ترغیب دیں، بڑا خواب زندگی کے اعلی مقصد سے آگاہی،انسان کو حوصلہ دیتا ہے۔ فرد کے اندر قوت،ولولہ اور جوش پیدا ہوتا ہے۔
۴. آخری اور بنیادی بات یہ ہے کہ لوگوں کو رجوع الی اللہ کی تلقین کریں، اللہ سے رشتہ مضبوط کریں، اس پر توکل کریں، قد ر پر اپنا عقیدہ پختہ کریں، موت سے گھبرائے نہیں بلکہ مومن کے لئے موت تو اللہ سے ملاقات کا اعلان ہے۔موت سے کسی کو فرار نہیں۔مسلمان کے لئے خوشگوار دن تو وہ ہے جس دن وہ اللہ سے ملاقات کے لئے اس دنیا کو وداع کرتا ہے۔ اس کی تذکیر ہو۔اس عقیدے کو مضبوط کیا جائے۔ جن کا انتقال اس وباء سے ہوا ہے،اللہ تعالیٰ انہیں شہید کا درجہ عطا فرمائے اور ہم پر سے اس وبا کو جلد از جلد ٹال دے۔

Spread the love

You May Also Like…

0 Comments