Demise of Maulana Syed Jalaluddin Umari, a great loss to the intellectual world — URDU

August 27, 2022

مولانا سید جلال الدین عمری کی وفات علمی دنیا کا بڑا خسارہ

مولانا سید جلال الدین عمری کا ابھی 26 اگست 2022 ، پونے نو بجے شب انتقال ہوگیا _ وہ 88 برس کے تھے _ گزشتہ برس انہیں کورونا ہوگیا تھا _ اس وقت سے کم زوری تھی ، لیکن وہ معمول کی سرگرمیاں انجام دینے لگے تھے _ ایک ہفتہ قبل نقاہت بڑھ گئی تب انہیں مرکز جماعت کیمپس میں قائم الشفا ہاسپٹل میں داخل کیا گیا ، جہاں انھوں نے آخری سانس لی _
مولانا عمری کا شمار عالم اسلام کے ان چند ممتاز علماء میں ہوتا ہے جنھوں نے مختلف پہلوؤں سے اسلام کی نمایاں خدمات انجام دی ہیں اور اسلام کی تفہیم و تشریح کے لیے قابل قدر لٹریچر تیار کیا ہے ۔ اسلام کی دعوت ، عقائد ، عبادات ، معاشرت ، معاملات اور سیاست پر آپ کی تصانیف سند کا درجہ رکھتی ہیں ۔
مولانا کی ولادت 1935 میں جنوبی ہند میں مسلمانوں کے ایک مرکز شمالی آرکاٹ کے ایک قصبے پتّگرام میں ہوئی _ انھوں نے جنوبی ہند کی معروف دینی درس گاہ ’جامعہ دارالسلام عمرآباد‘ سے 1954 ء میں سندِ فضیلت حاصل کی ، مدراس یونی ورسٹی سے فارسی میں منشی فاضل اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بی ، اے (اونلی انگلش) کے امتحانات پاس کیے ۔ جامعہ عمر آباد سے فراغت کے فوراً بعد آپ مرکز جماعت اسلامی ہند رام پور آگئے اور وہاں کے اصحابِِ علم سے استفادہ کیا ۔ 1956 ء میں جماعت اسلامی ہند کے شعبۂ تصنیف سے وابستہ ہوگئے ۔ یہ شعبہ 1970 میں رام پورسے علی گڑھ منتقل ہوگیا اور ایک دہائی کے بعد اسے ’ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی‘ کے نام سے ایک آزاد سوسائٹی کی شکل دے دی گئی ۔ مولانا اس کے آغاز سے 2001ء تک اس کے سکریٹری تھے ، اس کے بعد اب تک اس کے صدر تھے ۔ آپ ادارہ کے باوقار ترجمان سہ ماہی مجلہ’تحقیقات اسلامی‘ کے بانی مدیر بھی رہے ہیں ۔ یہ مجلہ اپنی زندگی کے 40/سال پورے کرچکاہے ۔ اسی دوران میں آپ نے پانچ سال (1986 تا 1990) جماعت اسلامی ہند کے ترجمان ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی کی ادارت کے فراض بھی انجام دیے ۔
ملک کی متنوع دینی ، ملی ، دعوتی اور تحریکی سرگرمیوں میں مولانا عمری کی سرگرم شرکت رہتی ہے ۔ آپ ایک طویل عرصے تک جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان اور مجلس شوریٰ کے معزز رکن رہے ۔ 1990 سے مارچ 2007 تک جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر تھے ۔ اس کے بعد مارچ 2019 تک اس کی امارت کی ذمہ داری نبھا ئی ۔ اس کے بعد جماعت کی شریعہ کونسل کے چیرمین تھے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے شخصی قوانین کی حفاظت ومدافعت میں سرگرم آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے نائب صدر ، شمالی ہند کی مشہور دینی درس گاہ جامعۃ الفلاح بلریاگنج ، اعظم گڑھ کے شیخ الجامعہ ، سراج العلوم نسواں کالج علی گڑھ کے سرپرست اعلیٰ تھے _ بعض دوسرے علمی اداروں سے بھی آپ کاتعلق تھا ۔
۔مختلف موضوعات پر مولانا عمری کی تقریباً چار درجن تصانیف ہیں ۔ ان میں تجلیات قرآن ، سیرت ، معروف و منکر ، غیرمسلموں سے تعلقات اوران کے حقوق ، خدا اور رسول کا تصور۔ اسلامی تعلیمات میں ، احکامِ ہجرت و جہاد ، انسان اوراس کے مسائل ، صحت و مرض اوراسلامی تعلیمات ، اسلام اور مشکلاتِ حیات ، اسلام کی دعوت ، اسلام کا شورائی نظام ، اسلام میں خدمت خلق کا تصور ، انفاق فی سبیبل اللہ ، اسلام انسانی حقوق کا پاسباں ، کم زور اورمظلوم اسلام کے سایہ میں ، غیراسلامی ریاست اور مسلمان ، تحقیقات اسلامی کے فقہی مباحث جیسی علمی تصانیف آپ کی تراوش قلم کا نتیجہ ہیں ۔ اسلام کا معاشرتی نظام مولانا کی دلچسپی کا خاص موضوع رہا ہے ۔ عورت اسلامی معاشرے میں ، مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ ، عورت اوراسلام ، مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں اور اسلام کا عائلی نظام جیسی تصانیف اس کا بہترین ثبوت پیش کرتی ہیں ۔ آپ کی کئی کتابیں زیرِ ترتیب تھیں ۔ ان کے علاوہ مختلف علمی اور فکری موضوعات پر آپ کے بہ کثرت مقالات ملک اوربیرون ملک کے رسائل اور مجلات میں شائع ہوچکے ہیں ۔
مولانا کی متعدد تصانیف کے تراجم عربی ، انگریزی ، ترکی ، ہندی، ملیالم ، کنڑ ، تیلگو ، مراٹھی ، گجراتی ، بنگلہ اور تمل وغیرہ میں شائع ہو چکے ہیں
مولانا کی اہلیہ کا انتقال گزشتہ برس کورونا میں ہوگیا تھا _ ان کے پس ماندگان میں دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں _
امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے مولانا کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے _ وہ برابر ان کی عیادت کرتے رہے _ انتقال کی خبر سنتے ہی وہ ہاسپٹل پہنچے اور ان کے صاحب زدگان سے مل کر تعزیت کی _

Spread the love

You May Also Like…

0 Comments