JIH President Syed Sadatullah Husani’s condolence message over the demise of Abdul Bari Momin (URDU)

July 15, 2020

مرحوم جناب عبدالباری مومن

 

از: سید سعادت اللہ حسینی: امیر جماعت اسلامی ہند
عالمی وبا کے ان ایام میں غم ناک خبریں روز کا معمول بن چکی ہیں لیکن اس کے باوجود فون پر اچانک جب عبدالباری مومن مرحومؒ کی رحلت کی خبر دیکھی تو جسم تھرا اٹھا۔ لاک ڈاون سے پہلے مرحوم شعبہ تعلیم کے کسی کام کے سلسلہ میں مرکز تشریف لائے تھے اور اچانک لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہیں رک گئے تھے۔ مرکز میں لاک ڈاون میں محصور رفقاء کی ایک جماعت بن گئی تھی جن سے بہت زیادہ قربت پیدا ہوگئی تھی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے اور اس عالمی وبا کو جلد سے جلد ختم فرمائے۔
عبد الباری مرحومؒ ان لوگوں میں سے تھے جن سے پہلی ملاقات ہی میں یہ تاثر قائم ہوجاتا ہے کہ یہ ایک بلند مقصد کے لئے جینے والا آدمی ہے۔ اپنا کام ان کے ذہن و اعصاب پر ہمیشہ سوار رہتا اور صاف محسوس ہوتا کہ اس انسان کو اپنے مقصد و مشن کے سوا کسی چیز سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ عمر کے اس پراؤ پر جب لوگوں کے لئے گھر چھوڑ کر کہیں جانا آسان نہیں رہتا، وہ گھر کی آرام دہ زندگی کے خواہشمندہی نہیں ضرورت مند بھی ہوتے ہیں، مرحوم کبھی ٹک کر اپنے گھر پر نہیں رہے اور پورے ملک کی خاک چھانتے رہے اور ریل گاڑیوں اور بسوں کے دھکے کھاتے رہے۔ مرکز بار بار آتے تھے اور یہاں کے مشکل حالات میں طویل قیام کرتے۔ کبھی’آئیٹا‘ کے لئے تو کبھی شعبہ تعلیم کی کسی غرض سے، کبھی درسیات کی تیاری کی خاطر تو کبھی افکار معلم کی ادارت کے مقصد سے۔’آئیٹا‘کے لئے وہ ملک کے ہر حصہ میں تشریف لے گئے اور اپنے خلوص اور سعی پیہم سے اس تنظیم کو متحرک اور فعال بنا دیا۔
سنجیدگی و متانت، اخلاص و بے لوثی، وضعداری، انکساری اور کریمانہ اخلاق، یہ ان کے مزاج کی کچھ نمایاں خصوصیات ہیں۔ اللہ نے بہت سی صلاحیتیں بخشی تھیں۔ ان کے تعلیمی مضامین نے کئی نسلوں کی تربیت کی۔کمپیوٹر و سائنس و ٹکنالوجی سے متعلق کئی اچھوتے موضوعات سے انہوں نے اردو دنیا کو روشناس کرایا۔ ایک شفیق استاد کی حیثیت سے اور اس کے بعد ملک بھر کے اسلام پسند اساتذہ کے رہبرو رہنما کی حیثیت سے لاکھوں زندگیوں پر انہوں نے مثبت اثرات مرتب کئے۔ان سب کے باوجود جس عاجزی و انکساری سے ملتے اور بات کرتے، اسے دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی۔ انکساری اور وضعداری یقینا بلند شخصیات کی ایک اہم پہچان ہوتی ہے۔
مختار مسعود نے لکھا تھا”اہل شہادت اور اہل احسان میں فرق صرف اتنا ہے کہ”شہید دوسروں کے لئے جان دیتا ہے اور محسن دوسروں کے لئے زندہ رہتا ہے۔ ایک کا صدقہ جان ہے اور دوسرے کا تحفہ زندگی“وبا میں انتقال کرنے والوں کو شہادت کی خوشخبری بھی دی گئی ہے۔ اس حوالہ سے انشاء اللہ ان کا شمار بیک وقت اہل شہادت اور اہل احسان دونوں میں ہوگا۔ اپنے اعلیٰ و ارفع مقصد کی خاطر انہوں نے زندگی کا تحفہ بھی دیا ہے اور جان کا صدقہ بھی۔
اللہ سے دعا ہے کہ ان کے حسنات کو شرف قبولیت بخشے اور مرحوم کی مختلف میدانوں میں طویل خدمات اور ان کے فیوض کے جاری و ساری سر چشمہ کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بنادے اور ان لاکھوں بزرگ،بچوں اور جوانوں کو بھی ان کے لئے صدقہ جاریہ بنادے جو ان کی تعلیمی کاوشوں سے مستفید ہوئے اور آج طرح طرح کی خدمات ملک کے طول و عرض میں انجام دے رہے ہیں۔ آمین۔
جاری کردہ:
شعبہ میڈیا، جماعت اسلامی ہند

Spread the love

You May Also Like…

0 Comments